(اوسلو (خصوصی رپورٹ
نارویجن پاکستانی مصور سید محمد انور علی لاہور کے تھانہ سندر کی حدود میں ایک قاتلانہ حملے میں شدید زخمی ہوگئے۔ تفصیلات کے مطابق، سید انور علی جو چالیس سال سے ناروے میں مقیم ہیں، ان دنوں اپنے خاندان کے کاروبار کے حوالے سے لاہور آئے ہوئے تھے۔
چند سال قبل ان کے ایک بیٹے نے جو پیشے کے اعتبار سے پٹرولیم انجیئر ہیں، پاکستان میں سرمایہ کاری کے حوالے سے اپنے والد کی دیرینہ خواہش پر لاہور کے علاقے بحریہ ٹاون کے قرب میں ایک ہائی کلاس ریسٹورنٹ کھولا۔
کچھ عرصے سے بعض خاندانی مصروفیات کی وجہ سے یہ لوگ مذکورہ ’’گریل کاٹج‘‘ ریسٹورنٹ کو کسی تیسری پارٹی کو فروخت کرنا چاہ رہے تھے اور اس مقصد کے لیے وہ لینڈ لارڈ ملک ریاض محمود سے اس کے ڈیرے پر ملاقات کرنے گئے۔
ملاقات کے دوران لینڈ لارڈ یہ بات سن کر کہ اس ریسٹورنٹ کے مالک ریسٹورنٹ کو کسی تیسرے پارٹی کو فروخت کرنا چاہتے ہیں، اشتعال میں آگیا اور اس نے اپنے گن مین سے انورعلی کو مارنے کے لیے کہا لیکن اس گین مین نے حملہ کرنے سے گریز کیا تو ملک ریاض نے گارڈ سے رائفل لے کر اس کے بٹوں سے انورعلی کو مار کر لہولہوہان کردیا۔
اس دوران حملہ آور اور اس کے ساتھیوں نے ان سے نقدی اور دیگر قیمتی اشیا بھی چھین لیں اور ساتھ ہی اپنے گارڈز سے کہاکہ ریسٹورنٹ کے سٹاف کو بے دخل کرکے ریسٹورنٹ کو تالا لگاو دو۔ واقعے کے بعد لینڈ لارڈ کے گارڈز نے ریسٹورنٹ پر جا کر سٹاف کو مارا پیٹا اور انہیں باہر نکال کر ریسٹورنٹ کو تالا لگا دیا۔
سید انور علی کی درخواست پر تھانہ سندر لاہور میں ایف آئی آر درج ہوگئی ہے لیکن ابھی تک پولیس نے کوئی خاص کاروائی نہیں کی اور پانچ دن گزر جانے کے باوجود ملزمان بخصوص ملک ریاض آزاد گھوم رہاہے۔
ملک ریاض کے بارے میں کہاجاتا ہے کہ وہ مسلم لیگ ن کا علاقے میں سرکردہ ہے۔ اس نے علاقے میں اپنا ایک ڈیرہ بنا رکھا ہے اور پولیس حکام بھی اس پر ہاتھ ڈالنے سے کتراتے ہیں۔
سید انور علی جن کا مشغلہ مصوری ہے، کافی عرصےسے پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے کا خواب دیکھ رہے تھے۔ تین سال قبل ان کے بیٹے نے کہا کہ وہ لاہور میں ریسٹورنٹ برانچ میں سرمایہ کاری کرنا چاہتا ہے تاکہ اپنے والد کی خواہش کو پورا کرسکے۔ پاکستان کے ساتھ گہری محبت کی خاطر یہ ریسٹورنٹ کھولا گیا اور ان کی خواہش تھی کہ پاکستان میں مزید سرمایہ کاری کی جاسکے تاکہ دوسرے اوورسیز پاکستانیوں کو بھی اس جانب راغب کیا جاسکے۔
اس واقعے کے بعد سید انور علی کے فیملی ممبران کا کہنا ہے کہ انہیں اس واقعے کے بعد بہت مایوسی ہوئی اور جس طرح پولیس نے بڑی مشکل سے ایف آئی آر کاٹی ہے اور ابھی تک ملزمان کے خلاف کوئی خاص کاروائی نہیں ہوئی، کون اس سسٹم پر یقین کرے گا۔
سید انورعلی کے بیٹے کا کہنا ہے کہ ہم نے اس ریسٹورنٹ پر ایک کروڑ کی سرمایہ کاری کی اور دیگر پراجیکٹس پر مزید سرمایہ کاری کرنا چاہتے تھے لیکن اپنے والد کے زخمی چہرے کو دیکھ کر بہت دکھ ہوا کہ وہ کتنے آرمان سے ہمیں پاکستان میں کاروبار کرنے لائے اور ان کے ساتھ کتنا بدترین سلوک ہوا۔ ہمارے ذہنوں میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ وزیراعظم عمران خان اس صورتحال میں جہاں انصاف نام کی کوئی چیز نہیں، کس طرح نئے پاکستان کے منصوبے کو عملی جامہ پہنائیں گے۔
واضح رہے کہ سید انور علی نے شمالی یورپ میں اپنے فن پاروں کے ذریعے محبت اور امن کا پیغام پہنچا یا ہے اور خاص طور پر انھوں نے پاکستان کے بارے میں اپنے فن مصوری کے ذریعے ایک مثبت پیغام دیا ہے۔
وزیراعظم عمران خان آج سے چوبیس سال قبل شوکت خان کی چندہ مہم کے سلسلے میں ناروے گٓئے تو سید انورعلی نے ان سے ملاقات کرکے اپنی ایک پینٹنگ انہیں تحفہ کے طور بھی دی تھی۔